تنوع کیا ہے؟اللہ تعالیٰ خالقِ کائنات ہے۔ اس نے اپنی قدرت کے اظہار کے لئے یکسانیت (Monotony) کو پسند
نہیں فرمایا بلکہ تنوع، تغیر اور ناہمواری کو ترجیح دی ہے۔ کائنات میں بکھرے ہوئے کروڑوں ستارے اپنی گوں نا گوں خصوصیات کے
باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سورج ایک ستارہ ہے۔ اس کے لخت جگر(سیارے) اس سے اور ایک دوسرے سے بے حد مختلف
ہیں۔ صرف زمین کی مثال لی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں پہاڑوں پر برف جمی ہے تو صحراؤں اور ریگستانوں میں غضب کی تپش
ہے۔ کوئی علاقہ سرسبز و شاداب ہے تو کوئی بنجر، کہیں خشکی ہے تو کہیں تری، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہماری زمین کا غیر حیاتی تنوع
ہے۔ اس کے بالمقابل جانداروں میں بھی بہت کچھ تغیر پایا جاتا ہے۔ جاندار نباتات بھی ہیں اور حیوانات بھی، کچھ جاندار خشکی کے ہیں
تو کچھ آبی اور کچھ فضائی۔ ان کے رہن سہن اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں بے انتہا تفاوت پایا جاتا ہے۔ یہ حیاتی تنوع
ہے۔
حیاتی تنوعسائنس کی اصطلاح میں حیاتی تنوع (Biodiversity) کا اطلاق اس کرۂ ارض پر پائے جانے
والے تمام نباتات، حیوانات اور ان کے ماحول و مسکن اور ان کے باہمی رشتوں پر ہوتا ہے۔ حیاتی تنوع درحقیقت متفرق انواع کا ایک
پیچیدہ لیکن متوازن جال (Network) ہے جس میں تمام انواع ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہیں۔ کسی ایک نوع کی بالادستی دوسری انواع
کی تباہی کا باعث ہوتی ہے۔ اس بات کو ایک مثال کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ ندی کنارے بسے ایک گاؤں میں پہلی ہی بارش میں
سیلاب کا پانی گھس آتا ہے اور پورا گاؤ ں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ حکومت اس بلائے ناگہانی کی وجہ معلوم کرنے کے لئے ماہرین کی
ایک ٹیم کو وہاں بھیجتی ہے۔ ماہرین اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کرتے ہیں اس تباہی و بربادی کی وجہ یہ ہے کہ چند برس پہلے اس
گاؤں میں پرندوں کے شکاری آئے تھے۔ اب بتائیے سیلاب سے شکاریوں کا کیا تعلق؟ لیکن تعلق ہے۔ ماہرین اپنی رپورٹ میں یہ تفصیل
بتاتے ہیں کہ چند برس پہلے گاؤں میں پرندوں کے جو شکاری آئے تھے انہو ں نے بے تحاشا پرندوں کا شکار کیا، یہاں تک کہ ایک بھی
پرندہ باقی نہیں رہا۔ پرندے درختوں پر پلنے والے کیڑے مکوڑوں اور دیمک کو کھاجایا کرتے تھے۔ جب پرندے ختم ہوگئے تو کیڑے
مکوڑوں اور دیمک کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے درختوں کا رس چوس چوس کر انہیں سکھادیا۔ درختوں کے سوکھنے
سے زمین ڈھیلی پڑگئی اور بارش میں مٹی کا کٹاؤ شروع ہوگیا۔ مٹی کے بہنے سے ندی کی سطح میں اضافہ ہوا اور آخر اس سال پہلی
ہی بارش میں سیلاب کا پانی گاؤں میں در آیا!
انسان اپنی زندگی کی ہر ضرورت کے لئے حیاتی تنوع پر انحصار کرتا ہے۔ انسان
اور اس کے ماحول کی بقا کے لئے حیاتی تنوع کا بقاء لازمی ہے۔ حیاتی تنوع کا بقاء اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اس کے توازن کو
برقرا ر رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بااختیار مخلوق بنایا ہے،اسے اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا ہے۔ انسان نے اپنے
محدود اختیارات کا اکثر غلط استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان کی خود غرضی، لالچ اور ہوس کے چلتے اس کرۂ ارض کا
حیاتی تنوع تہس نہس ہوکر رہ گیا ہے۔
اصطلاح ’’حیاتی تنوع‘‘ (Biodiversity) دراصل اصطلاح ’’ حیاتی تنوع‘‘ (Biological
Diversity) کا مخفف ہے۔ یہ اصطلاح یعنی Biological Diversity جنگلاتی زندگی اور اس کے تحفظ میں مشغول سائنسداں Raymond F.
Dasmann نے 1968 میں اپنی کتاب A different kind of country میں استعمال کی تھی۔ لیکن یہ اصطلاح 1980 کے بعد ہی عام استعمال
میں آئی۔ اس سے پہلے ان ہی معنوں میں اصطلاح قدرتی تنوع (Natural Diversity) مستعمل تھی۔ 1985 میں W-G Rosen نے اصطلاح
حیاتی تنوع (Biodiversity) وضع کی۔ تاہم 1988 میں سماجی ماہر حیاتیات (Sociobiologist) E.O. Wilson نے اس اصطلاح کی باقاعدہ
اشاعت کا اہتمام کیا۔
’’حیاتی تنوع‘‘ ایک نہایت ہی پیاری اور خوبصورت اصطلاح ہے۔ اس میں دیگر انواع کے علاوہ پوری نوع
انسانی زندگی کا فلسفہ مضمر ہے۔ اس میں انسانی نفسیات کی پوری ایک داستان پوشیدہ ہے۔زندگی ہر ذی روح کو عزیز ہے۔ ہر جاندار
بزگسیت (Narcissim) کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ ’’حیاتی تنوع‘‘ نہ صرف نرگسیت اور جمالیات بلکہ غمِ روز گار کے تمام شعبوں کا
بھی احاطہ کرتا ہے۔ لہذا حیاتی تنوع کا علم اور اس کے تحفظ کی فکر ہر عاقل شخص کے لئے لازمی ہے۔
’’حیاتی تنوع‘‘ کی کئی
تعریفیں (Definitions) وجود میں آئی ہیں۔ ہر تعریف اپنی جگہ نہایت مناسب ہے۔ زیادہ تر ماہرین ’’حیاتی تنوع‘‘ کی تعریف ان الفاظ میں
کرنا پسند کرتے ہیں:
"Totality of genes, species and ecosystems of a region.''
(کسی علاقے یا رقبے میں پائے جانے
والے جینس، انواع اور ماحولیاتی نظاموں کی مجموعیت)۔
حیاتی تنوع کا علاقہ محدود بھی ہوسکتا ہے جیسے ایک چھوٹا سا باغ۔ یہ
لامحدود بھی ہوسکتا ہے جیسے یہ پورا کرۂ ارض۔ یہ تعریف زندگی کی تینوں سطحوں یعنی حیاتی تنوع، نوعی تنوع اور ماحولیاتی نظام
کے تنوع کا ہمہ گیر نظریہ پیش کرتی ہے۔ 1982 میں Bruce A. Wilcox نے حیاتی تنوع کی تعریف ذیل کے مطابق پیش کی:
Biological Diversity is the variety of life forms at all levels of biological systems (i.e. molecular, organismic, population
species and ecosystem).
تمام حیاتیات نظاموں کی تمام سطحوں پر زندگی کی رنگا رنگی، سالماتی، عضویاتی ، آبادی، انواع اور
ماحولیاتی نظامات میں تنوع ’’حیاتی تنوع‘‘ کہلاتا ہے)۔
1992 میں اقوام متحدہ ارض چوٹی کانفرنس (UN Earth Summit) نے حیاتی
تنوع کی تعریف اس طرح بیان کی:
’’تمام ذرائع، منجملہ زمینی، سمندری اور دوسرے آبی ماحولیاتی نظامات اور ماحولیاتی پیچیدگیوں
میں بسنے والے تمام جانداروں میں پایا جانے والا تنوع ’’حیاتی تنوع‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں انواع کے اندر تنوع، مختلف انواع کے درمیان
تنوع اور ماحولیاتی نظامات میں پایا جانے والا تنوع بھی شامل ہے۔ 1993 میں اس تعریف کو حیاتی تنوع پر منعقد اقوام متحدہ کنونشن میں
اپنایا گیا۔
حیاتی تنوع کے مضمرات1۔ حیاتی تنوع سے زمین پر زندگی کی رنگا رنگی ہے۔
2۔ تمام
جاندار ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں، ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔
3۔ کوئی بھی نوع اپنے ماحولی نظام سے کٹ
کر زندہ نہیں رہ سکتی۔
4۔ جاندار اور غیر جاندار میں ارتباط اور توازن ماحول کو زندگی دوست بناتا ہے۔
5۔ انسان کی
بالادستی اور دست درازی ماحول کے نظام کو درہم برہم کردیتی ہے۔
حیاتی تنوع پر اثر انداز ہونے والے عواملحیاتی تنوع ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ عالمی سطح پر اس میں بہت تغیر پایا جاتا ہے۔ اس تغیر کی وجہ اس پراثر انداز ہونے والے
عوامل ہیں۔
چند عوامل ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ درجۂ حرارت (Temperature)
2۔ بارش (Precipitation)
3۔ بلندی
(ارتفاع) (Altitude)
4۔ مٹی (Soil)
5۔ جغرافیہ (Geography)
6۔ دوسری انواع (Other Species)
ان عوامل کے
زیر اثر خشکی کا حیاتی تنوع سمندری حیاتی تنوع سے 25 گنا زیادہ ہے۔ ایک جدید مطالعے کے مطابق اس کرۂ ارض پر 8.7 ملین انواع
پائی جاتی ہیں جن میں سے صرف 2.1 ملین سمندری ہیں۔
حیاتی تنوع کی اقسام
حیاتی تنوع کی تین قسمیں
ہیں:1۔ نوعی تنوع (Species Diversity)
2۔ جینیاتی تنوع (Genetic Diversity)
3۔ ماحولیاتی تنوع (Ecosystem
Diversity)
1۔ نوعی تنوع :۔زمین پر پائے جانے والے تمام جاندار (نباتات، حیوانات، خوردبینی جاندار) کے
نوعی سطح پر پائے جانے والے فرق (تغیر) کا مجموعہ ’’نوعی تنوع‘‘ کہلاتا ہے۔ Mora اور اس کے ساتھیوں کی تحقیق کے مطابق اس
وقت دنیا میں پائی جانے والی انواع کی تعداد یہ ہے:
8.7ملین خشکی کی انواع
2.2ملین سمندری انواع
ان میں سے ابھی
صرف 1.5 ملین انواع کی شناخت ہوچکی ہے اور انہیں نام دئے جاچکے ہیں۔ ایک دوسرے مطالعے کے مطابق 10 سے 100 ملین انواع
کی دریافت، ان کا مطالعہ اور انہیں نام دینا باقی ہے۔
نوعی تنوع کسی مخصوص علاقے کی انواع کی تعداد اور نوع کے پھیلاؤ کو
بھی دریافت کرتا ہے۔
2۔ جینیاتی تنوع :۔انفرادی جینس (Genes) کی سطح پر واقع ہونے والے تغیر کو
جینیاتی تنوع کہتے ہیں۔ جینیاتی تنوع انواع میں مختلف خصوصیات کے لئے ذمہ دار ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے
والے جینس تغیر پذیری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جینیاتی تنوع کے نتیجے میں انواع مختلف ماحول سے مطابقت (Adaptation) پیدا کرتی ہیں۔
ایک نوع کی مختلف نسلوں یا آبادیوں میں جینیاتی تنوع تو صاف دکھائی دیتا ہے لیکن ایک نوع کی ایک نسل میں بھی اس کے امکانات ہوتے
ہیں۔ اسی طرح مختلف انواع میں جینیاتی تنوع پایا جاتا ہے۔ جینیاتی تنوع کے نتیجے میں انواع میں ساختی (Structural) اور عضویاتی
(Physiological) تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
3۔ ماحولیاتی تنوع :۔
زندگی زمینی، آبی اور فضائی تینوں طرح کے
ماحولی نظاموں میں پائی جاتی ہے۔ ہر علاقے کا ماحولی نظام حیاتی تنوع کوقابو میں رکھتا ہے۔ کسی ایک ماحولی نظام میں مختلف انواع
ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہیں۔ وہ ماحول سے مطابقت بھی پیدا کرتی ہیں۔ اور ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔
حیاتی تنوع کی اقدار
حیاتی تنوع اس کرۂ ارض پر زندگی کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ یہ ایک طرح کی ہم
باشی ہے جس میں ہر جاندار نہ صرف دوسرے جانداروں سے فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ انہیں نفع بھی پہنچاتا ہے۔ اسی طرح ہر جاندار اپنے
ماحولی نظام کے غیر جاندار اجزاء سے بھی مستفیض ہوتا ہے۔ حیاتی تنوع’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر کارفرما ہے۔ لیکن چوں کہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری مخلوفات پر فوقیت بخشی ہے اور چند محدود اختیارات عطا فرمائے ہیں، وہ حیاتی تنوع سے سب سے
زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ حیاتی تنوع کے نظام میں انسان نے خود کو سب سے اعلیٰ مقام (Driver's Seat) پر فائز کرلیا ہے۔ اب وہ صرف
اپنے حقوق کے حصول کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ اپنے فرائض سے اس نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
حیاتی تنوع کے تجارتی پہلو،
ماحولیاتی خدمات، سماجی اور جمالیاتی علاقوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ حیاتی تنوع سے حاصل ہونے والے فائدے اس کی اقدار
کہلاتے ہیں۔ حیاتی تنوع کی اقدار ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ استعمالی اقدار
(Consumptive Values):
۔
غذا، لباس اور رہائش کے لئے انسان اپنے ماحول کے حیاتی تنوع پر راست منحصر ہے۔
غذا کے لئے انسان حیوانات
اور نباتات دونوں پر انحصار کرتا ہے۔ماضی میں وہ خودروپودوں (Wild Plants) کی بڑی تعداد کو غذا کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ ایک
اندازے کے مطابق تقریباً 80,000 خوردنی خودرو پودے دریافت کئے گئے ہیں۔پھر سماجی زندگی کی تعمیر کے چلتے ان میں سے 90
فیصد پودوں کو گھریلو (Domesticate) بنایا گیا۔
ادویات کے لئے انسان نباتات، حیوانات اور معدنیات پر منحصر رہا اور اب بھی
انہیں پر انحصار کرتا ہے۔ عالمی آبادی کا تقریباً 75 فیصد حصہ ادویات کے لئے پودوں اور ان کے حاصلات پر منحصر ہے۔ پینی
سلین، ٹیٹرا سائیکلین، کونین، ڈجی ٹالن، ون کرسٹائن، ون بلاسٹن جیسی اہم اور انقلابی دوائیاں پودو ں سے حاصل کی جاتی ہیں۔
انسان زندگی اور ترقی کا پہیہ ایندھن (Fuel) کے استعمال سے حرکت میں رہتا ہے۔ حیاتی تنوع نے انسان کو لکڑی، کوئلہ، پٹرولیم اور
قدرتی گیس کی شکل میں ایندھن مہیا کیے ہیں۔
2۔ صنعتی قدر (Industrial Value):۔
کاغذ کی صنعت، پلائی وڈ
کی صنعت، ریلوے سلیپر کی صنعت، ریشم کی صنعت، لاک کی صنعت، پارچہ کی صنعت، چمڑے کی صنعت، اون کی صنعت اور موتی
کی صنعت وغیرہ پورے طور پر حیاتی تنوع پر منحصر ہیں۔
3۔ معاشرتی ا قدار (Social Values):۔
نباتات اور
حیوانات دونوں ہی انسان کی معاشرتی زندگی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ انسان کے مذہبی و سماجی رسم و رواج اور روحانی و
نفسیاتی پہلوؤں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ریحان (تُلسی)، پیپل، آم، کنول وغیرہ کے درخت اور پودے ان کے پھل، پھول اور پتے مختلف
مذاہب میں مقدس سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح گائے، سانپ، الو، مور، بیل وغیرہ کی بھی معاشرتی مذہبی و نفسیاتی اقدار ہیں۔ لہذا
حیاتی تنوع کی معاشرتی اقدار قابلِ ذکر ہیں۔